اے نوح ؑ، میں تو تمہارے وعدے کا ذمے دار تھا
جب حضرت نوح ؑ کشتی بنا رہے تھے تو ایک مومنہ بوڑھی عورت روز اللہ کے نبی کے پاس اپنی گٹھڑی لے کر آتی اور کہتی ”اے اللہ کے نبی، کب کشتی روانہ ہوگی؟“ حضرت نوح ؑ فرماتے ”ابھی دیر ہے۔“ وہ عورت شام تک بیٹھی رہتی اور پھر اٹھ کر چلی جاتی-
ایک دن حضرت نوح ؑ نے فرمایا کہ اے بوڑھیا، جب جانا ہوا تو تمہیں بتا دیا جائے گا۔ یہ عورت واپس چلی گئی اور انتظار کرنے لگی کہ کب نوح بلائیں گے۔ اس دوران عذاب آگیا، ایک بہت بڑا طوفان آیا اور کشتی روانہ ہو گئی لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے اس عورت کو نہ بلایا(ظاہری طور پر نوح ؑ کو اس کو بلانا بھلا دیا گیا)- سب کچھ تباہ ہو گیا ، صرف حضرت نوح ؑ کی کشتی اور اس میں سوار محفوظ رہے-
کئی دن گزر گئے جب طوفان تھما توایک دن حضرت نوح ؑ کے دل میں محبت اٹھی کہ شہر کو دیکھوں جہاں سے چلا تھا۔ وہاں گئے اور تباہ حال شہر کو دیکھنے لگے تبھی دور ایک جھونپڑی میں دیا جل رہا تھا۔ وہاں آئے اور قریب جا کر دیکھا تو یہ دیکھ کر چونک گئے کہ روئے زمین پر کوئی ایسا گھر بھی ہے کہ اتنے عظیم طوفان کے بعد بھی جس میں چراغ جل رہا ہے۔
حضرت نوح ؑ نے وہاں تکبیر بلند کی تو وہ عورت سامان لے کر آگئی اور کہنے لگی ”اے اللہ کے نبی، کیا کشتی تیار ہے چلیں؟“ حضرت نوح ؑ نے حیرت سے اسکو دیکھا اور کہا ” رکو بوڑھیا- کیا تمہیں کچھ بھی پتا نہیں چلا“- وہ کہنے لگی ”اے اللہ کے نبی، کیا نہیں پتا چلا؟“
کہا: ”اتنا بڑا سیلاب آیا، بارش آئی، تمہیں کچھ بھی پتا نہیں چلا“- بڑھیا کہنے لگی ” اے اللہ کے نبی، بس ایک دن بادل گرجے تھے اور کچھ ہلکی سی پھوہار پڑی تھی“- حضرت نوح ؑ حیران ہو کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور کہا ” میرے اللہ، یہ کیا ماجرا ہے؟“
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ پر وحی بھیجی کہ اے میرے پیارے نبی، اس عورت کے دل میں چونکہ تمھاری محبت تھی اور تم نے اسے پابند کر دیا تھا اور چونکہ تمہارا اس سے وعدہ بھی تھا کہ نجات کی کشتی میں اسے لے جاؤ گے، تب جبکہ تم نے اپنا وہ وعدہ پورا نہیں کیا- لیکن اے نوح ؑ، میں تو تمہارے وعدے کا ذمے دار تھا، اس لیے میں نے اس بڑھیا تک عذاب پہنچنے ہی نہیں دیا۔
ماشا اللہ بہت خوبصورت ہے۔