گراؤنڈ مین نےمحمد رضوان کو تھپڑ رسید کردیا

محمد رضوان کی پیدائش:1 جون 1992ء) کو ہوئی رضوان کا تعلق درہ آدم خیل سے ہے لیکن ان کے آباؤ اجداد تعلیم و کاروبار کی غرض سے پشاور آکر بس گئے تھے۔  وہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں دوسرے نمبر پر اور شادی شدہ ہیں رضوان کے گھر میں ایک پورا کمرہ ان کے تمغوں اور تصاویر سے سجایا گیا ہے جب کہ ان کے گھر کو جانے والا راستہ بھی ’رضوان سٹریٹ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ۔ آپ  ایک پاکستانی انٹرنیشنل کرکٹر ہے جو 2015ء سے بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ دائیں ہاتھ کے بلے باز اور وکٹ کیپر ہیں جنہوں نے تینوں بین الاقوامی فارمیٹس: ٹیسٹ ، ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سنچریاں بنائی ہیں۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان ہیں۔ وہ لاہور قلندرز کے لئے 2016ء سے 2017ء تک ، 2018ء سے لے کر 2020ء تک کراچی کنگز کے لئے کھیلا اور فی الحال پاکستان سپر لیگ میں ملتان سلطانز کے لیے کھیلتا ہے اور کپتان ہے۔ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں خیبرپختونخوا کی کپتانی کرتے ہیں

پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان محمد رضوان کا ایک انٹریو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں وہ اپنی نجی زندگی سے متعلق کھل کر گفتگو کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اس دوران رضوان نے کرکٹر بننے سے پہلے کی چند دلچسپ باتیں بھی اپنے مداحوں سے شیئر کیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ انہیں کرکٹ میں آنے سے پہلے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں کرکٹ سے لگاؤ کب سے پیدا ہوا تھا ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کرکٹ سے متعلق ان کے مختلف یاداشت کیا ہیں۔

رواں سال ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز محمد رضوان نے کہا کہ میرا تعلق بڑے گھرانے سے نہیں اور یہ سب ہی جانتے ہیں تاہم یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میرے پاس ابتدا میں کرکٹ کھیلنے کا سامان نہیں ہوتا تھا۔میرے پاس کرکٹ کھیلنے کے لئے اپنا بیٹ یا بال بھی نہیں تھی۔ اس کے باوجود میرا کرکٹ سے لگاؤ  بچپن سے ہی تھا

ٹکٹ رضوان نے بتایا کہ وہ  بچپن ہی سے کرکٹ کے دیوانے تھے، جس کی وجہ سے 16 سال کی عمر میں انہیں اسلامیہ کالج میں سپورٹس کوٹے پر داخلہ مل گیا۔ رضوان  کے مطابق ان کے والد کو ان کا کرکٹ کھیلنا سخت ناپسند تھا اور وہ چاہتے تھے کہ رضوان اپنی توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھیں اور مستقبل میں خاندان کے دیگر نوجوانوں کی طرح طب کا شعبہ اختیار کریں۔

جب رضوان کسی طور کرکٹ سے باز نہ آئے تو ان کے والد ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے لگے، یہاں تک کہ ان کی کٹس کو بھی جلا دیا۔ تاہم جس دن انہیں خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج میں سپورٹس کوٹہ پر داخلہ ملا تو اس دن رضوان کو والد نے کھل کر کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی، اور یوں انہوں نے پوری توجہ و توانائی کرکٹ پر صرف کرنا شروع کر دی۔

پاکستانی کرکٹر محمد رضوان نے اپنے ماضی کے متعلق بتایا کہ ہمارے گھر میں کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے کوئی  ٹیلی ویژن بھی موجود نہیں تھا تاہم کرکٹ سے میرا لگاو دیکھ کر میرے دادا نے مجھے ایک ٹی وی خرید کردیا تاکہ میں میچ دیکھ سکوں

،میرا کرکٹ کا جنون بڑھتا ہی گیا جس کی وجہ سے  بعد میں میں نے دادا جان کا خریدا  ہوا وہی ٹی وی بیچ کر اپنی زندگی کا پہلا بلا خریدا۔

پاکستانی ٹیم کے  وکٹ کیپر نے کہا کہ مجھے پشاور کا کرکٹ اسٹیڈیم دیکھنے کا شوق پیدا ہوا تو وہ دیکھنے گیا جو  مجھے پہلی بار نہیں ملا، اس وقت چھوٹا سا گیٹ تھا ، بڑی بڑی دیواریں تھیں، میں واپس آگیا لیکن تسلی نہیں ہوئی، اگلی بار دوستوں کے ساتھ گیا۔

رضوان نے بتایا کہ جیسے ہی گیٹ میں داخل ہوا تو وہاں موجود گراؤنڈ مین نے پوچھا یہاں کیا کررہے ہو، جس پر میں نے جواب دیا کہ گراؤنڈ دیکھنے آیا ہوں، اس نے مجھے تھپڑ رسید کردیا اور اس تھپڑ پر دوست آج بھی مجھے تنگ کرتے ہیں اور اگر آج وہ گراؤنڈ مین میرے سامنے آیا تو میں اس کو پہچان لوں گا۔

مداحوں کے سوال کے جواب میں محمد رضوان کا  کہنا تھا کہ اگر وہ مجھے کسی دن مل گیا تو میں اسے ضرور جادو کی جھپی دوں گا، لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ اس وقت کہاں ہوگا البتہ اسے تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اپنی کامیابی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر محمد رضوان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سینے پر جو اسٹار لگا ہے اس پر کسی قسم کا کوئی داغ نہ آئے۔

اسلامیہ کالج پشاور میں ان کے کوچ اور استاد محمد علی ہوتی نے رضوان کے لڑکپن کے دنوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ شروع سے ہی ایک اچھے، پرعزم اور محنتی کھلاڑی تھے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے وہ اسلامیہ کرکٹ ٹیم اور دیگر کئی ڈومیسٹک میچز کے کپتان بنے۔ ایک وقت آیا جب مجھے لگا کہ رضوان کے لیے کھلاڑی کے طور پر سیکھنا زیادہ اہم ہے لہٰذا میں نے ان سے قیادت واپس لے لی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کھلاڑی کے طور پر ان کے سیکھنے کا عمل متاثر ہو۔‘

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے محمد رضوان کے بھائی محمد عباس نے بتایا کہ رضوان کے کرکٹ کیریئر میں اہم موڑ وہ تھا جب 2010 میں وہ ایس این جی پی ایل  (سوئی ناردرن گیس پائپ لمیٹڈ) کے خلاف کھیل رہے تھے۔’یہ میچ پشاور جیت گیا تھا، تاہم کھلاڑی کے طور پر رضوان کی اچھی پرفارمنس پر ایس این جی پی ایل نے انہیں پیشکش کی، جس کے بعد انہیں بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا موقع ملا۔‘

 اگرچہ رضوان کو عالمی سطح پر قیادت کا موقع اتفاق سے ملا، تاہم ان کے اہل خانہ اور کرکٹ کی دنیا سے وابستہ ان کے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف قسمت نے ان کا ساتھ دیا بلکہ ان میں کپتان بننے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔

ان کے بھائی محمد عباس نے کہا کہ رضوان نے کرکٹ کی دنیا میں بہت مشکلات جھیلی ہیں، جن میں بعض ایسے مرحلے بھی آئے جس نے خود انہیں بھی غمگین کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ ان باتوں کا برملا اظہار نہیں کرنا چاہتے۔

انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں کپتانی کی ذمہ داری ریگولر کپتان بابر اعظم کے انگوٹھے پر چوٹ  لگنے کی وجہ سے سونپی گئی ہے۔ رضوان نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ٹیسٹ سیریز سے قبل ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل کر ان کے حوصلے بلند ہوئے جو کہ ٹیسٹ سیریز میں ان کے لیے کافی اہمیت کی حامل ہو گا

۔پاکستان کرکٹ ٹیم نے تیسرے ٹی20 میچ میں زمبابوے کو شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز 1-2 سے جیتی تو یہ چوتھے نمبر کی ٹیم کی 11ویں نمبر پر موجود ٹیم کے خلاف فتح نہیں لگی بلکہ 2 برابر کی ٹیموں کا مقابلہ لگ رہا تھا۔

ان دونوں ٹیموں میں فرق محمد رضوان کی بیٹنگ کا رہا جنہوں نے 2 بہترین اننگز کھیلتے ہوئے پاکستان کو فتح دلوائی۔ رضوان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جس میچ میں وہ ناکام ہوئے وہاں قومی ٹیم بھی شکست سے دوچار ہوگئی۔ محمد رضوان نے جہاں اس سیریز میں 186 کی اوسط اور 134 کے اسٹرائیک ریٹ سے 186 رنز بنائے وہیں باقی تمام پاکستانی بیٹسمین 90 کے اسٹرائیک ریٹ سے صرف 201 رنز ہی بنا پائے، اور شاندار کارکردگی کی بنیاد پر انہیں سیریز کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا۔

لیکن آج سے اگر صرف 6 یا 7 ماہ پیچھے چلے جائیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کھلاڑی ٹی20 کرکٹ کے لیے بنا ہی نہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ رضوان پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کراچی کنگز کا حصہ تو تھے لیکن انہیں موقع تک نہیں ملتا تھا۔ شاید وہ فیصلہ ٹھیک بھی تھا کہ بھلا صرف 110 کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنانے والے کھلاڑی کو کوئی فرنچائز بھلا موقع بھی کیوں دے؟

چھکوں اور چوکوں کے اس کھیل میں محمد رضوان کی بطور وکٹ کیپر تو جگہ بنتی تھی لیکن ان کی بیٹنگ ایسی ہرگز نہیں تھی کہ جس کی آج کل ہر ٹیم کو ضرورت ہے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور قومی ٹیم میں واپسی کے بعد سے رضوان کی بیٹنگ مسلسل زیرِ بحث ہے، خاص طور پر مختصر کرکٹ میں تو وہ کمال کررہے ہیں۔

رضوان کے اب تک کے ٹی ٹوئنٹی کریئر کو اگر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں عار نہیں کہ رواں سال وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ڈان بریڈمین رہے ہیں۔اس کے علاوہ کرکٹ محققین کا کہنا ہے کہ

پاکستان کے لیے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں یہ ایک نہایت تابناک سال ثابت ہوا ہے۔ اس ٹیم کی فتوحات کے تناسب نے سرفراز احمد کی نمبر ون ٹیم کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اور اس میں کلیدی کردار پاکستانی اوپنرز بالخصوص محمد رضوان کا رہا ہے جنھوں نے یہاں ریکارڈ چھٹی سینچری پارٹنرشپ ترتیب دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں