لاہور کے کوٹھے- بدنام گلیوں سےسنسنی خیز کہانی

مجھے یونیورسٹی چھوڑے ہوئے تقریبا پانچ سال ہوگئے تھے لیکن اب بھی جب کبھی دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو ہم اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال لیتے۔ پھر سب دوست کسی نہ کسی جگہ مل کر کھاتے پیتے اور کچھ ہلا گلا کرتے۔ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے۔ایک دوسرے کے دکھ سکھ سنتے ہیں مشورہ دیتے اور کام کاروبار کی باتیں کرتے۔ ایسے میں اکثر ہمارا چکر سڑک کنارے بنے ہوئے چھوٹے ڈھابوں یا چائے خانوں میں ضرور لگتا ہے یہاں ہم چائے پینے کے لئے بیٹھے ہیں۔ اصل میں ان جگہوں پر ملنے والے چائے کا ذائقہ اور کسی بھی جگہ پر نہیں ملتا ہم اپنی پرانی یادوں کے ساتھ اپنے پرانے ذائقے کو بھی تازہ کرتے۔

ایسے ہی ایک دن جب ہم پانچ دوست مل کر ایک ڈھابے پر چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آپس میں خوش گپیوں پر لگے ہوئے تھے کہ اچانک میرے ایک دوست میں ہوٹل کے بیرے  کو پیمنٹ کرتے ہوئے بے دھیانی میں پچاس روپے کا نوٹ نیچے گرا دیا اس نے نادانستہ طور پر اس نے اس پر پاؤں رکھ دیا تاکہ وہ لوٹ کر نہ سکے یہ منظر دیکھ کر اسی ڈھابے پر موجود مزدوروں کے ایک گروپ میں سے ایک درمیانی عمر کا مزدور ہماری طرف بھاگا ہوا آیا اس نے اس نوٹ کو اٹھایا صاف کیا چومہ اور پھر میرے دوست کے حوالے کردیا اس کا یہ عمل ہم سب کے لئے بہت حیران کن تھا کیوں کہ اس نے پچاس روپے کے نوٹ کو کچھ اس طریقے سے اٹھایا جیسے کوئی مقدس آیات یا مقدس اوراق کو اٹھایا جاتا ہے۔ ایسے ہی بات چیت کرنے کے لئے ہم نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور وقت گزاری کے لیے اس سے اس کی داستان سننے کا ارادہ کیا آئیے آپ کو اس کی داستان بتاتے ہیں۔

وہ مزدور جرور تھا لیکن صدا کا مزدور نہیں تھا بلکہ تقریبا بیس سال پہلے اس کے باپ کا تعلق علاقے کے امیر کبیر لوگوں میں ہوتا تھا وہ ایک بہت بڑے کاروباری شخص کا اکلوتا بیٹا تھا اس کا باپ نہ صرف کاروباری تھا بلکہ بہت بڑا ذمہ دار بھی تھا یوں سمجھ لیجیے کہ وہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوا تھا گھرمیں ٹھاٹ باٹ دیکھے تھےوہ کونسی اس آئی تھی جو میسر نہیں گھر گاڑی بنگلہ پیسہ ہر چیز وافر مقدار میں موجود تھی اور اس کے ساتھ باہر مرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے اس کے خوب لاڈپیار اٹھائے گئے اور اسی لاڈ پیار سے وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھتے ہیں وہ انتہا کا ضدی بدتمیز اور خود سر ہو گیا تھا۔

پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ناز نخرے سے پلا بڑا پیسے کی فراوانی جوانی اور ماں باپ کی بے جا لاڈ پیار نے اس کی صحبت کو بھی خراب کر دیا اس کی دوستی برے لڑکوں کے ساتھ ہو گئے بس پھر کیا تھا سگریٹ سے شروع ہونے والا پہلا نشہ بعد میں شراب ہیروئن اور آئسنگ تک جا پہنچا۔ باپ کو علم ہوا تو اس نے پیار محبت سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بچپن سے ناجائز منوانے والا لڑکا ایک تم سے اپنے باپ کی کیسے سن سکتا تھا اس لیے اس نے اپنے باپ کی بات پر کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دو اس کی صحبت دن بہ دن بڑھتی ہی گئی اب کی بار  باپ نے سختی سے سرزنش کی۔ اب تو بات بہت آگے تک جا پہنچی تھی راتوں کو دیر سے واپس آنا شراب کے نشے میں دھت رینا کمرے میں ہر طرح کا نشان موجود رہنا ایک عام سی بات ہوتی جا رہی تھی چھوٹی چھوٹی بات پر چیخنا چلانا ملازموں پر ہاتھ اٹھانا ماں باپ کے ساتھ بدتمیزی کرنا بڑھتا جا رہا تھا ۔ والد اپنے واحد اولاد کو اس حد تک برباد ہوتے ہوئے دیکھ کر برداشت نہ کر پایا اور اس ہیں  روک  نے باپ  کو بیمار کر دیا بیٹے کی دن بدن بگڑتی ہوئی حالت میں نے والد کو بھی شدید بیمار کر دیا اور اسی دوران ایک دن شدید ہارٹ اٹیک سے ان کی وفات ہوگئی یوں سمجھ لیں کہ بیٹے کی بے راہ روی پر باپ  کی جان لے  گی۔

باپ کے مرتے ہیں تمام کاروبار اور زمین بیٹے کے نام منتقل کر دی گئی باپ کی موت دیکھنے کے بعد بھی بیٹے کی عادتیں ختم نہ ہوئی بلکہ اب وہ کھل کر کھیلنے لگا۔ اس نے اپنی ماں کو ایک فلیٹ میں شفٹ کر دیا اور اپنے گھر کو ناچ گانے کی جگہ بنا دیا۔

سارا دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے گھر میں خوب شراب کے مزے لوٹتا ایسے میں اس کے دوستوں نے اسے شباب کی فرمائش کر ڈالی ابھرتی ہوئی جوانی  شراب کے نشہ اور دوستوں کی غلط صحبت میں اسے یہ یاد ہی نہیں دلوایا کہ وہ سب غلط کر رہا ہے دونوں ہاتھوں سے اپنے باپ کی کمائی کو لٹانے لگا اس سے باپ کے گھر میں اب شراب کے ساتھ ساتھ شباب کی محفلیں بھی جمنے لگی اور اس محفل میں پورے شہر سے مجرا گاہ اور کوٹھے کی حسیناؤں کو دعوت دی جاتی۔شراب کے ساتھ شباب کی محفلیں خوب جمائی جاتی اور پیسے کو پانی کی طرح بہایا جاتا ایسے میں اس نوجوان کی نظر ایک ڈانسر پر جاری کی وہ حسن کی بیوی تھیں باتیں کرتی تو لگتا ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے ہیں اس کی زلفیں لمبی تھی۔

وہ اس حسینہ کا ایسا اسیر ہوا کے پھر ساری دنیا کو بھول گیا ۔ وہ جسنے پہلے ہے شراب اور ناچ گانے کی محفلوں میں باپ کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے اڑا رہا تھا اب رہی سہی کسر اس حسینہ نے پوری کر دی وو اس حسینہ کا مستقل گاہک بن گیا ۔ اب اس کے دن رات اس ہی حسینہ کے ہاں گزرتے۔

میری آنکھوں کے بارے میں پورا شہر جانتا تھا ایسے میں والد کے دوست میرے پاس آئے اور انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار  سے کہا بیٹا اللہ دولت اسی کو دیتا ہے جو اس کی قدر کرتا ہے۔ اللہ دولت کی فراوانی نصیب والوں کو دیتا ہے تم دولت کو اس طرح لوٹا کر اللہ کی دی ہوئی نعمت کی نافرمانی کر رہے ہو۔ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے دئیے ہوئے رزق کی ناقدری کرتا ہے تو

اللہ اس سے ایمان کی دولت بھی لے لیتا ہے

تم اللہ کے دیئے ہوئے دولت کو اپنے پاؤں پر رو رہے ہو اس سے رک جاؤ میں اس وقت بڑے  غرور سے بولا

مجھے میرے حال پر چھوڑ دو  جا کے اپنے بال بچوں کی فکر کریں وہ لوگوں کا گریبان پکڑ کے چیختے رہتے ہیں ۔

میرے سرور کا نتیجہ بہت جلد نکل آیا وہ حسینہ  جس پر میں پوری طرح فدا تھا

وہ اپنے کسی دوسرے گاہک کے پاس محفل کر رہی تھی مجھے پتہ چلا تو میں سیدھا وہی پہنچا لڑائی جھگڑا اور میرے ہاتھ سے ایک گولی چل گئی گولی سیدھا جا کے اس حسینہ  کو لگی  اس کی جان تو بچ گئی لیکن مجھ پر قتل کا مقدمہ لگ گیا سزا سے بچنے کے لیے میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا میں جیل سے باہر تو آ گیا لیکن میری تمام دولت ختم ہوگی آج میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں ایک فیکٹری میں ملازم ہوں اس فیکٹری میں جس پٹری کا مالک میرا باپ تھا۔ اب مجھے اپنے باتیں اس دوست کی بات یاد آتی ہے  جس نے کہا تھا

جو شخص دولت کو پاؤں میں روندتا ہے   

اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے    

  اور رزق چھین لیتا ہے

آخر میں اس مزدور نے ایک بہت ہی بڑی بات کہی اس نے  کہا

جناب مجرہ کروانے والے کبھی بھی دولت مند نہیں رہتے اللہ ان سے ناراض ہو جاتا ہے کیونکہ مجرہ کروانے والے اللہ کی نعمت کو گندی عورتوں کی پاؤں میں روند دیتے ہیں اور اللہ اپنی نعمتوں کی تذلیل برداشت نہیں کرتا 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں