
دادا جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
دادا جان کہتے تھے کہ:
“آج کل ہم لوگ ماڈرن ہو چکے ہیں اب تو باپ کے بنا بیٹے کی اور ماں کے بنا بیٹی کی بھی شادی ہو جاتی ہے تو پھر باقی رشتے کس کھیت کی مولی ہیں؟
لیکن کچھ عرصہ پہلے اس بات کو بہت غلط سمجھا جاتا تھا کہ جس سے اپنے سگے رشتے نہیں سنبھالے جاتے وہ آنے والے رشتے یا بننے والے رشتے کیا خاک سنبھالے گا؟
دادا ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
ایک بار ان کے دوست اللہ یار کے بیٹے کی شادی تھی
لیکن اللہ یار کا بڑا بھائی کسی بات پر کچھ عرصے سے خفا تھا۔
بیٹے کی شادی قریب آئی تو اللہ یار نے اپنے بڑے بھائی کو منانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔
کیسے ممکن تھا کہ اللہ یار کے بیٹے کی شادی میں اللہ یار کا بڑا بھائی اور دلہے کا تایا ہی موجود نہ ہو؟
اللہ یار اپنے بیٹے کو لے کر اپنے بڑے بھائی یعنی دلہا کے تایا کے گھر پہنچ گیا اور منانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
بڑے بھائی سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی اور پیر پکڑ کر ہر طرح کی منت سماجت بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔
اگلے روز ہی بارات لے کر لڑکی والوں کی طرف جانا تھا۔
جب بڑا بھائی جانے کیلئے تیار نہیں ہوا تو اللہ یار نے اپنے بیٹے یعنی دلہے کو بڑے بھائی کے گھر کے باہر ایک دیوار کے ساتھ بٹھا دیا
اور بڑے بھائی سے یہ کہتے ہوئے واپس پلٹ گیا کہ
“صبح نو بجے بارات کا وقت مقرر ہے اور آپ کے بنا بارات لے کر نہ میں جا سکتا ہوں اور نہ ہی آپ کا بھتیجا اپنے تایا کے بغیر بارات لے کر جانے پر رضا مند ہے…فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔”
اللہ یار کے جانے کے بعد دلہے کا تایا بار بار گلی میں جھانک کر دیکھتا رہا کہ شاید بھتیجا چلا گیا ہو لیکن بھتیجا جوں کا توں وہاں موجود تھا۔
رات کے تین بجے دلہے کے تایا نے اپنے کپڑے بدلے اور اپنا حقہ ہاتھ میں لے کر گلی میں پہنچا۔
اپنے بھتیجے کا ہاتھ پکڑ کر کہا چل یار چلتے ہیں۔
تیرا باپ تو ویسے بھی پاگل ہے۔
تایا اور بھتیجا شادی والے گھر پہنچے تو سب نے استقبال کیا اور اللہ یار نے پوچھا کہ بھائی جان آ گئے آپ؟
جواب ملا کہ
کیسے نہ آتا؟
لڑکی والے کیا سوچتے کہ دلہے کا تایا بارات میں کیوں نہیں آیا اور ایسے خاندان کی بدنامی ہوتی اور اوپر سے تم دلہے کو گلی میں بٹھا کر چلے گئے تھے۔
یوں ہنسی خوشی یہ شادی اپنے اختتام کو پہنچی۔
رشتے اس طرح جوڑے جاتے ہیں۔
یہ مقام ہوتا ہے رشتوں کا۔
مگر خیر چھوڑیں ہم تو ماڈرن ہیں۔
نئے زمانے کے لوگ ہیں۔